Wednesday, September 21, 2016

ISLAM ME HIJDO ( mukhannas ) KI SHARIYAT



خواجہ سرا ( ہجڈا) اور ہمارا معاشرہ





نیم سائنسدان جناب غالب کمال صاحب جیسے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے ہجڑوں ( خواجہ سراوں ) کو حقوق نہیں دیئے وہ دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نےاپنے معاشرے میں پھیلے ہوئے اس گندے کلچر کو معاذ اللہ اسلام سمجھ لیا ہے ، ہمارے معاشرے میں کسی گھر میں اگر کوئی خواجہ سرا پیدا ہوجائے تو اس کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے تو کیا یہ اسلامی حکم ہےیا یہ ہماری جہالت ہے ، کس عالم مفتی نے فتوی دیا ہے کہ کوئی نامرد پیدا ہوتو اس کو گھر سے نکال دیا جائے؟؟اسلام تو ان کو میراث میں بھی شریک کرنے کا حکم دیتا ہے ، ان بیچاروں کے لئے روزگار کے ذرائع بند کردیئے گئے تو کیا یہ اسلامی حکم سمجھ کر کیا گیا ہے ؟؟ کس مفتی اور کس عالم نے فتوی دیا کہ ان لوگوں کا کام کرنا حرام ہے؟؟ اپنی جہالتوں کو اسلام کا لیبل لگا کر اسلام پر اعتراضات یہ تمھاری جہالت ہے ، کسی کا ہیجڑا پیدا ہونا یہ اللہ کی طرف سے ہی ہے اس کے لئے بھی شریعت کے احکامات ہیں وہ بھی احکامات کا مکلف ہے ، ان بیچارے خواجہ سراوں کو ہمارے معاشرےنے بند لگی میں دھکیلا ہے جو کہ ظلم ہے ، باقی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بعض مرد عورتوں کی مشابھت اختیار کرتے ہیں اور اپنی چال اور گفتار کو عورتوں کی طرح بناتے ہیں اور ناچ گانا کرتے ہیں یہ ہیچڑے نہیں بلکہ مخنث ہیں ان پر اللہ کے رسول نے لعنت بھیجی ہے ، یعنی وہ مرد جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں وہ ملعون ہیں ، ہمارے معاشرے میں اکثریت مردوں کی ہے جنھوں نے یہ پیشہ اختیار کیا ہوا ہے اور یہ غلط کاموں میں بھی ملوث ہوتے ہیں ، اس لئے ان کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ، لیکن اگر کوئی قدرتی طور پر اس طرح پیدا ہو اور وہ عفت اور پاکدامنی سے زندگی گزار رہا ہے تو بلاشبہ وہ اجر و ثواب کے لحاظ سے مردوں سے بھی سبقت لے جائے گا کیونکہ اس نے پوری زندگی صبر اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی حالات میں گزاری ہے ، یہ لوگ قابل نفرت و ملامت ہرگز نہیں ۔ بلکہ ان کے ساتھ محبت کا تعلق اور ان کی دلجوئی کرنی چاہیے کہ کہیں یہ اپنے آپ کو معاشرے سے الگ تصور کرکے اچھوتوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں ۔

ایسی مخلوق کو عربی میں مخنث اور اردو میں ہیجڑا یا کھسرا کہا جاتا ہے۔ اور ایسی خلقت والے لوگ آج کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی موجود تھے،اور شریعت میں ایسے لوگوں کے حوالے سے تفصیلی راہنمائی موجود ہے،فقہائے کرام نے اپنی کتب فقہ میں ایسے لوگوں کے حوالے سے تفصیلی مباحث بیان فرمائی ہیں۔

اب آتے ہیں غالب کمال کے مین سوال کی طرف کہ اللہ نے مرد و عورت کا زکر تو کر دیا مگر ہیجڑے کا زکر کیوں نہیں کیا؟ مرد اور عورت کی جنس میں ہیجڑے کا بھی زکر ہونا چاہیے تھا۔ کہتے ہیں نیم حکیم خطرہ جان ، اسی طرح نیم سائنسدان خطرہ ایمان :) محترم غالب کمال صاحب نے ہیجڑے کو بھی جینڈر یعنی جنس میں شامل کر دیا ہے اور ان کے بقول تین جنسیں ہو گئیں مرد، عورت اور ہیجڑا۔ مگر لگتا ہے موصوف نے سائنس کو صرف دیکھا ہے پڑھا نہیں۔ 

یہ کوئ نئ جنس نہیں بلکہ ایک بیماری کا نام ہے جسے Klinefelter syndrome  کلِنفیلٹر سنڈروم کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک سنڈروم یعنی بیماری ہے تو اس کا الگ سے جنس کا تعین کرنا چہ معنی دارد۔ اصل میں می اوسس ۱ میں جب کروموسومز کا تبادلہ ہوتا ہے تو نارملی مرد کا x یا yکروموسوم عورت کے x کروموسوم کو فرٹیلائز کرتا ہے۔ اگر xx مل جائیں تو عورت اور XY ملیں تو مرد ہوتا ہے۔ 

مگر اس سنڈروم میں کسی وجہ سے می اوسس   (Meiosis) کے دوران کروموسومز الگ نہیں ہو پاتے۔ اس وجہ سے مرد کا XY کروموسوم عورت کے x کو یا مرد کا y عورت کے xx کو فرٹیلائز کر سکتا ہے جس سے xxy کروموسوم والا جاندار بنے گا۔ اس بیماری کو ہیری کلِنفیلٹر نے دریافت کیا جس کی بنا پر اس کا نام رکھا گیا۔  ای میڈیکل میں اس کو ایک بیماری کے طور ہر رجسٹر کیا گیا ہے جس کا نمبر ped/1252 ہے۔ یہ صرف پانچ سو میں اسے ایک شخص یا ہزار میں سے ایک شخص کو ہوتی ہے۔ اب یہ مطالبہ کرنا کہ اس کی بنیاد پر مرد ، عورت اور ہیجڑے کی مختلف جنسیں بنا کر پیش کی جائیں سواۓ جہالت کے اور کچھ نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اللہ نے کسی کو اندھا پیدا کیا ، کسی کو لنگڑا۔ اب ان جیسے خود کار سائنسدان اٹھ کر یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھو نعوز باللہ اللہ سے بھول ہو گئ اور اس کو اندھا پیدا کو دیا۔ ارے بھئ یہ بھی ایک بیماری ہے جو اللہ کی طرف سے امتحان ہے بالکل اس طرح جیسے کہ مخنس ہے۔ پہلے تو سائنس میں اس کو بیماری کی کیٹگری سے ہٹا کر جنس کی کیٹگری میں لاؤ پھر آ کر اعتراض کرنا کہ اس جنس کا زکر نہیں کیا۔ غالب کمال کا پہلا بہت مزیدار جملہ کہ "اللہ نے جنت میں مرد و عورت پیدا کیے تو یہ کمبخت ہیجڑا کہاں سے آ گیا" ،            صاحب جنت میں یہ سنڈروم نہیں نہ میاوسس ۱ نہ می اوسس ۲۔  

مگر شریعت اسلام نے پھر بھی ان کی ظاہری صورتحال کو مدنظر رکھ کر ان کے حقوق متعین کیے ہیں۔ 

1
ـ خنثى لغت عرب ميں اس شخص كو كہتے ہيں جو نہ تو خالص مرد ہو اور نہ ہى خالص عورت، يا پھر وہ شخص جس ميں مرد و عورت دونوں كے اعضاء ہوں ، يہ خنث سے ماخوذ ہے جس كا معنىٰ نرمى اور كسر ہے، كہا جاتا ہے خنثت الشئ فتخنث، يعنى: ميں نے اسے نرم كيا تو وہ نرم ہو گئى، اور الخنث اسم ہے.

اور اصطلاح ميں: اس شخص كو كہتے ہيں جس ميں مرد و عورت دونوں كے آلہ تناسل ہوں، يا پھر جسے اصل ميں كچھ بھى نہ ہو، اور صرف پيشاب نكلنے والا سوراخ ہو.

2 ـ اور المخنث: نون پر زبر كے ساتھ: اس كو كہتے ہيں جو كلام اور حركات و سكنات اور نظر ميں عورت كى طرح نرمى ركھے، اس كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

جو پيدائشى طور پر ہى ايسا ہو، اس پر كوئى گناہ نہيں.

دوسرى قسم:

جو پيدائشى تو ايسا نہيں، بلكہ حركات و سكنات اور كلام ميں عورتوں سے مشابہت اختيار كرے، تو ايسے شخص كے متعلق صحيح احاديث ميں لعنت وارد ہے، خنثى كے برخلاف مخنث كے ذكر يعنى نر ہونے ميں كوئى اخفاء نہيں ہے.

3 ـ خنثى كى دو قسميں ہيں: منثى مشكل اور خنثى غير مشكل.

ا ـ خنثى غير مشكل:

جس ميں مرد يا عورت كى علامات پائى جائيں، اور يہ معلوم ہو جائے كہ يہ مرد ہے يا عورت، تو يہ خنثى مشكل نہيں ہو گا، بلكہ يہ مرد ہے اور اس ميں زائد خلقت پائى جاتى ہے، يا پھر يہ عورت ہو گى جس ميں كچھ زائد اشياء ہيں، اور اس كے متعلق اس كى وراثت اور باقى سارے احكام ميں اس كا حكم اس كے مطابق ہو گا جس طرح كى علامات ظاہر ہونگى.

ب ـ خنثى مشكل:

يہ وہ ہے جس ميں نہ تو مرد اور نہ ہى عورت كى علامات ظاہر ہوں، اور يہ معلوم نہ ہو سكے كہ يہ مرد ہے يا عورت، يا پھر اس كى علامات ميں تعارض پايا جائے.

تو اس سے يہ حاصل ہوا كہ خنثى مشكل كى دو قسميں ہيں:

ايك تو وہ جس كو دونوں آلے ہوں، اور اس ميں علامات بھى برابر ہوں، اور ايك ايسى قسم جس ميں دونوں ميں سے كوئى بھى آلہ نہ ہو بلكہ صرف سوراخ ہو.

4 ـ جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ اگر بلوغت سے قبل خنثى ذكر سے پيشاب كرے تو يہ بچہ ہوگا، اور اگر فرج سے پيشاب كرے تو يہ بچى ہے.

اور بلوغت كے بعد درج ذيل اسباب ميں سے كسى ايك سے واضح ہو جائيگا:

اگر تو اس كى داڑھى آ گئى، يا پھر ذكر سے منى ٹپكى، يا پھر كى عورت كو حاملہ كر ديا، يا اس تك پہنچ گيا تو يہ مرد ہے، اور اسى طرح اس ميں بہادرى و شجاعت كا آنا، اور دشمن پر حملہ آور ہونا بھى اس كى مردانگى كى دليل ہے، جيسا كہ علامہ سيوطى نے اسنوى سے نقل كيا ہے.

اور اگر اس كے پستان ظاہر ہو گئے، يا اس سے دودھ نكل آيا، يا پھر حيض آ گيا، يا اس سےجماع كرنا ممكن ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر اسے ولادت بھى ہو جائے تو يہ عورت كى قطعيت پر دلالت كرتى ہے، اسے باقى سب معارض علامات پر مقدم كيا جائےگا.

اور رہا ميلان كا مسئلہ تو اگر ان سابقہ نشانيوں سے عاجز ہو تو پھر ميلان سے استدلال كيا جائيگا، چنانچہ اگر وہ مردوں كى طرف مائل ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر وہ عورتوں كى طرف مائل ہو تو يہ مرد ہے، اور اگر وہ كہے كہ ميں دونوں كى طرف ايك جيسا ہى مائل ہوں، يا پھر ميں دونوں ميں سے كسى كى طرف بھى مائل نہيں تو پھر يہ مشكل ہے. مگر یہ ایسا نہیں کہ جہاں اللہ تعالی مرد و عورت کا زکر کریں وہاں اس کا زکر بھی ہو۔ یہ جینیٹک سنڈروم ہے اور مخنث کو ان کیٹگریز کے حساب سے ان کے حقوق متعین کیے جائیں گے۔ 

اور اگر غالب کمال صاحب اس حساب سے ہیجڑوں کی جینڈر سپیسفسٹی gender specificity کے بارے میں کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو ہم حاضر ہیں۔ :)

Wednesday, September 7, 2016

kya aurat fitna hai ?

کیا عورت فتنہ ہے!؟ 


ــــــــ۔۔ــــــــــ­۔ـــــــ۔۔ــــــــــ­۔۔ــــ۔۔۔۔ــــ۔۔ــــ­ــــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر نقصان دینے والا اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے ۔ (بخاری و مسلم)
بہت سی خواتین اس حدیث کی غلط تشریح پر بھی بدظن ہو گئ ہونگی... لیکن خیر... خواتین کو چیں بہ جبیں ہونے کی ضرورت نہیں... کیونکہ اس میں خواتین کو براہِ راست فتنہ نہیں کہا گیا... بلکہ مردوں کیلئے فتنہ کہا گیا ہے... مطلب یہ کہ اگر کسی دوائی کا کسی بندے پر نتیجہ برا نکلتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوائی بری ہے... مرد کیلئے وہی عورت صحیح ہے جو اس کی منکوحہ ہے... باقی سب اس کیلئے فتنے کے ضمن میں ہی آئینگی... وہ سب جو نامحرم ہیں... چاہے وہ کتنی ہی نیک اور اچھی کیوں نہ ہوں... لیکن یہ بات دھیان میں رہے کہ کچھ دوائیاں فی الواقع بری ہی ہوتی ہیں... نشہ آور...!
آپ سمجھ رہے ہونگے کہ یہ عورتوں کے ساتھ اسلام کا امتیازی سلوک ہے... اور یہ بھی کہ مسئلہ مردوں کے ساتھ ہے اور بات عورتوں کی کی گئی ہے... نہیں... بالکل بھی نہیں... جبکہ اسلام میں تو دنیا کی بہترین متاع، نیک عورت کو گردانا گیا ہے... ایک اور وجہ اس کی یہ ہے کہ عورتوں کی بابت تو حدیث میں مذکور ہے جبکہ مردوں کے بارے قرآن میں بیان ہے... اور یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن کو حدیث پر فوقیت بہ ہر حال حاصل ہے... ایسے مردوں کو سورۃ الاحزاب میں کہا گیا ہے کہ انکے دلوں میں مرض ہوتا ہے... اور عورتوں کو ان سے ہوشیار رہنا چاہیے...! (فی قلوبھم مرض - الاحزاب)
لیلی، مجنوں، ہیر، رانجھا جیسی امثلہ، جنھیں بہت زیادہ پھیلایا گیا ہے۔۔۔ ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر صنفِ نازک مرد کے ذہن پر حاوی ہو جائے، تو نتیجہ بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ اور اس طرح کی مثالیں تو بکثرت ہیں ہمارے معاشرے میں جب کسی مرد کے ذہن پر بیوی، بہن یا ماں حاوی ہو تو باقیوں کو (خاص طور پر دوسری کسی عورت کو ہی) کیسے بھگتنا پڑتا ہے۔۔۔!
اب آتے ہیں کہ فتنہ کہا کیوں گیا...!؟ قرآن میں سورہ آل عمران کے شروع میں 'لوگوں' کی خواہش کی جو جو چیزیں گنوائی گئی ہیں ان میں خواتین سب سے پہلے گنوائی گئی ہیں... ایک تو سطحی حسن ہی بہت زیادہ بڑی چیز ہے جو دماغ کے ساتھ ساتھ نفس کی چولیں بھی ڈھیلی کر کے رکھ دیتا ہے جس سے رال بہنے میں فی الواقع دیر نہیں لگتی... لیکن محض ظاہری چیزیں بھی مردوں کو نہیں کھینچتیں... بلکہ آواز، معصومیت اور اسکے علاوہ ہر بندے کی اپنی جمالیاتی حس کے مطابق عورت اسکو اچھی لگتی ہے... کچھ عورتیں تو اپنے آپکو ابھارتی ہی اس طرح ہیں کہ وہ ہر مرد کیلئے فتنہ ہوتی ہیں... چمک، دمک دیکھ کر کون نہ بہکے گا... لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں فقط بہکانے کیلئے بنتی سنورتی ہیں... بلکہ بہت سی ایسی بھی ہوتی ہیں جو محض اپنے لئے یہ سب کرتی ہیں اور انکے پیشِ نظر ایسا کوئی بھی مذموم ارادہ نہیں ہوتا کہ مردوں کو بہکائیں... مگر قصوروار وہ بھی ہیں... انکی نیت سے مردوں کی نیت میں کیوں فرق آنے لگا... وہ تو اپنی ڈگر ہی ناپینگے... اس طرح قصوروار وہ بھی ہیں گو کہ مطمحِ نظر انکا شمال بننا نہیں... کیونکہ ایک معاشرے میں رہتے ہوئے پورے معاشرے کا حق، ذاتی اور انفرادی حق سے بڑھ کر ہی ہوتا ہے...!
اسی طرح ایک خاص وقت آتا ہے جب مردوں کیلئے، جو مذہبی رجحان رکھتے ہیں، یہ غیر اسلامی لباس والی بالکل پھیکی ہو جاتی ہیں... اور انھیں پردوں، برقعوں والی ہی پسند آنی شروع ہو جاتی ہیں... انھیں کشش انھی میں نظر آتی ہے... کیونکہ عورت کی خواہش مرد میں پہلے ہی رکھ دی گئی ہے... جو پیسوں کے پیچھے بھاگتے ہیں وہ بھی پیسوں سے یہی کچھ کرتے ہیں... عرصہ ہوا سنا تھا کہ رب جس سے ناراض ہو اسے عورتوں کے فتنے میں مبتلا کر دیتا ہے... صحیح سنا تھا... بےشک عورتیں اس کی طرف دھیان دیں یا نہ دیں... وہ ہمہ وقت ان ہی کے خیالات میں منہمک رہتا ہے... انہی کے پیچھے دوڑتا ہے... کتوں کی مانند چاہے ہڈی ملے یا نہ ملے اسکی زبان باہر ہی نکلی رہتی ہے... اسکی ایک مثال جون ایلیا کی بات سے ہی دی جا سکتی ہے جو سارے نہیں تو اکثر مردوں کا مرض ہے، جون سمیت:
"کسی بھی حسین عورت کو کسی مرد کے ساتھ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے میری ذاتی حق تلفی ہوئی ہو...!"
عورتوں کی نسبت مردوں کا ذہن عجب ہئیت کا حامل ہوتا ہے... عام طور پر مرد جب صنفِ نازک کو دیکھتے ہیں تو انکی کھوپڑی میں فلسفہ پکنا شروع ہو جاتا ہے... اور اس پھلسپھے کو جذبات کی آگ سے دہکایا جائے نفس کا چمچ ہلا کر تو جو منصوبہ بنتا ہے وہ بہت خطرناک ہوتا ہے... اسی وجہ سے تو عورتوں کو ظاہری آرائش و زیبائش تو کجا خوشبو وغیرہ لگا کر باہر نکلنے کی بھی ممانعت کی گئی ہے... یہاں تک کہ نماز بھی گھر میں ادا کرنے کو افضل کہا گیا ہے... مولانا عامر عثمانی المعروف ملا ابن العرب مکی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول عورت ایک ایسا برمہ ہے جو سو سال پرانی کھوپڑی میں بھی سوراخ کر سکتا ہے... اس قول کی روشنی میں زیادہ تر مردوں کی کھوپڑی فی الواقع اٹھارویں سال ہی چھلنی ہو چکی ہوتی ہے...!
ماحصل اس تمام بات کا یہ ہے کہ... بہت بری اور بہت اچھی عورتوں کو پتا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح مردوں کیلئے فتنہ ہو سکتی ہیں... اس لئے وہ اسکا خاص طور پر خیال رکھتی ہیں... عام لڑکی کو نہیں معلوم ہوتا کہ حیا بذاتِ خود بہت پرکشش ہوتی ہے... اور مردوں کے جوشیلے، نوکیلے، نفسیلے، رسیلے، بہکیلے جذبات کو تلپٹ کر کے رکھ دیتی ہے... مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا اسی لیے حکم ہے... ایسے وقت میں ایک عورت ہوتے ہوئے یہ طرزِ عمل ہونا چاہئے کہ اوّل تو مرد ہمکلام ہونے کا شرف ہی حاصل کرتا ہوا کترائے غیر عورت سے... اور اگر کر بھی لے تو اسکا انداز معصوم اور نرم ہونے کی بجائے اتنا روکھا اور نپا تلا ہونا چاہیے کہ وہ مزید آگے نہ سوچ سکے اگر اسکے دل میں مرض ہو بھی... اور آخر میں جو سب سے زیادہ اہم بات ہے، دونوں اصناف کیلئے، وہ یہی ہے جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی... تو سنو... اگر تم میں حیا نہیں، تو جو جی میں آئے کرو...!
ھذا ماعندی... واللہ اعلم باصواب...!
ــــــــ۔۔ــــــــــ­۔۔ــــ۔۔۔۔ــــ۔۔ــــ­ــــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔
حوالہ جات:-
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، جَمِيعًا عَنِ الْمُعْتَمِرِ، قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ قَالَ أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، أَنَّهُمَا حَدَّثَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ ‏ "‏ مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِي النَّاسِ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ‏"‏.
(صحیح مسلم ٢٧٤١)
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ‏"‏‏.
(صحیح بخاری ٥٠٩٦)
Top of Form