Friday, February 16, 2018

IMHAAT UL MAUMINEEN PER SHIRK KA ILZAAM







وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
لقمان - 6
اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بیہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ( لوگوں کو) بے سمجھے خدا کے رستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزاء کرے یہی لوگ ہیں جن کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا
"حضرت خدیجہ رضی اللہ"
حضرت خدیجہ قریشی قبیلے کی ایک معزز خاتون تھیں اور اپنا سرمایہ بڑی سمجھ داری سے تجارت میں لگاتی تھیں۔ حکمت اور دانائی وافر ملی تھی۔ ایسی عفت مآب کہ طاھرہ (پاک دامن) لقب تھا۔ جاھلیت میں بھی اپنی فطرت اصلیہ کو بت پرستی یا شرک سے آلودہ نہیں کیا تھا۔ پہلی آسمانی کتابوں کا علم رکھتی تھیں، مردم شناسی کا ملکہ آپ کو ودیعت ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تجارت کے لیے وہ نبی علیہ السلام کا انتخاب کرتی ہیں اور تجارت کی غرض سے ملک شام کا جو سفر آپ کرتے ہیں وہ سب احوال اپنے وفادار خادم میسرہ سے سن کر سمجھ جاتی ہیں کہ آپ اس امت کے آخری نبی ہیں۔ نبی کی بیوی بننے کی سعادت سے آپ محروم نہیں ہونا چاہتی تھیں اس لیے دونوں خاندانوں کی رضا مندی سے آپ کا نکاح نبی علیہ السلام سے ہو جاتا ہے اور پندرہ برس بعد آپ پر پہلی وحی نازل ہوتی ہے۔ رسول اللہ وحی اترنے کی کیفیت سے گھبرا جاتے ہیں۔ اس وقت آپ کو ایک سچے ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت خدیجہ سے بڑھ کر آپ کا ہمدرد اور کون ہو سکتا تھا۔ آپ گھر لوٹتے ہیں اور فرماتے ہیں: زَمّلونی، دَثَّرونی مجھے جلدی سے لحاف اڑھا دو۔
وہ بڑی مستعدی سے آپ کو کمبل اڑھا دیتی ہیں اور آپ کے ساتھ بیٹھ جاتی ہیں اور مسلسل دلاسا دیتی رہتی ہیں۔ آپ جب پرسکون ہو جاتے ہیں تو غار حرا کا ماجرا من وعن سنا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے تو اپنی جان کی فکر ہے۔مگر حضرت خدیجہ فرماتی ہیں (کلاَّ) ایسا مت سوچیے۔
اِنَّکَ لَتصل الرحم وتصدق الحدیث وتحمل الکلّ وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق
(بھلا خدا ایسے شخص کو کیوں ہلاک کرے گا)
آپ رشتہ داری نبھاتے ہیں، سچ بولتے ہیں، ناتواں کو سہارا دیتے ہیں، نادار پر خرچ کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں اور مصائب میں لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں۔
حضرت خدیجہ کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا سلام پہنچانے خانہ نبوت میں تشریف لاتے ہیں، اور فرماتے ہیں: یا رسول اللّٰہ ھذہ خدیجہُ قد اتت، معھا اناء فیہ اِدام اَو طعام اَو شراب، فاذا ھی اَتَتک، فاقراعلیھا السلام من رَبَّہا ومنِیّ اے اللہ کے رسول، خدیجہ کچھ خوردونوش کا سامان لے کر آپ کے پاس آیا چاہتی ہیں، جب وہ آپ کے پاس پہنچ جائیں تو اُن سے اُن کے رب کا سلام کہیے اور میری طرف سے بھی سلام کہیے
عرشِ معلی سے اتری یہ تہنیت جب اپنے شوہر سے سنتی ہیں تو ایک بڑا پاکیزہ جملہ عرض کرتی ہیں۔ اِنَّ اللّٰہ ھو السلام اللہ تو خود سلام ہے (مجھ جیسی گناہ گار بندی کے لیے یہ مژدا!) (وعلی جبریل السلام) جبریل علیہ السلام پر سلام (وعلیک السلام) اور آپ پر سلام۔
"حضرت جویریہ رضی اللہ"
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے منقول ہے کہ سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بڑی شیریں ،ملیح اور صاحب حسن وجمال عورت تھیں ،جو کوئی اسے دیکھتا فریضۃ ہو جاتا تھا۔جنگ اور تقسیم غنا یم کے بعد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک سمندر کے کنارے میرے پاس تشریف فرماتھے کہ اچانک جویریہ نمودار ہوئیں مجھ پر آتش غیرت نے غلبہ کیا کہیں ایسا نہ ہو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف توجہ خاص مبذول فرمائیں اور اپنے حبالہ عقد میں لے آئیں ۔ جب جویریہ آئیں ۔ تو انھوں نے سب سے پہلی بات یہ کہی کہ یا رسول اللہ میں مسلمان ہو کر حاضر ہوئی ہوں ۔
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وانک رسولہ
اور میں حارث بن ابی ضرار کی بیٹی ہوں جو اس قبیلہ کا سردار اور پیشوا تھا ۔ اب لشکر اسلام کے ہاتھوں میں قید ہوں ۔ اور حضرت ثابت بن قیس کے حصہ میں آگئی ہوں ۔اور اس نے مجھے اتنے مال پر مکاتب (یعنی آقا کو مطلوبہ رقم ادا کرکے آزادی حاصل کرنا بنایا ہے میں اسے ادا نہیں کر سکتی میں امیّد رکھتی ہوں کہ میری اعانت فرمائی جائے تاکہ کتابت کی رقم ادا کر سکوں ۔ فرمایا : میں ادا کردونگا اور اس سے بھی بہتر تمھارے ساتھ سلوک کروں گا۔
انھوں نے کہا اس سے بہتر کیا ہوگا ۔
فرمایا کتابت کی رقم ادا کرکے تمھیں حبالہ عقد میں لاکر زوجیت کا شرف بخشوں گا۔ اس کے بعد کسی کو ثابت بن قیس کے پاس بھیجا کہ وہ کتابت کی رقم ادا کرے اس کے بعد ان کو آزاد کرکے حبالہ عقد میں لے آئے اور چار سو درہم مہر کا مقرر فرمایا. صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین نے جب جانا کہ آپ سید کائنات کی زوجیت میں آچکی ہیں تو باہم کہنے لگے ہمیں یہ زیب نہیں دیتا ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حرم کے اقربا کو قید و غلامی میں رکھیں ،اس کے بعد سب کو آزاد کردیا ،جن کی تعداد سو سے زیادہ تھی۔
ام المؤمنین سیدہ جویریہ فرماتی ہیں کہ بارگاہ رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہونے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ مدینہ طیبہ سے چاند چلتا ہوا میری آغوش میں اتر آیا ، یہ خواب کسی سے بھی بیان نہ کیا جب میں خواب سے بیدار ہوئی تو اس کی خود ہی کر لی جو الحمد اللہ پوری ہوئی۔
"حضرت میمونہ رضی اللہ"
پہلا نکاح مسعود بن عمرو عمیر ثقفی سے ہوا۔ انہوں نے کسی وجہ سے طلاق دے دی۔ پھر ابورُہم بن عبدالعزّیٰ کے نکاح میں آئیں۔ سنہ ۷ ہجری میں انہوں نے وفات پائی اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں۔ اسی سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کیلئے مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عم محترم حضرت عبّاس بن عبد المظلب نے میمونہ سے نکاح کرلینے کی تحریک کی۔سورہ احزاب کی آیت 50 اسی موقعہ پر نازل ہوئی. حضور صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہو گئے، چنانچہ احرام کی حالت میں ہی شوّال سنہ ۷ ہجری میں ۵۰۰ درہم حق مہر پر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔ عمرہ سے فارغ ہو کر رملہ سے دس میل کے فاصلے پر بمقام سرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کو لے کر اسی جگہ آ گئے اور یہیں رسم عروسی ادا ہوئی۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بیوی تھیں۔ یعنی ان سے نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات تک کوئی اور نکاح نہیں کیا۔
"حضرت ام حبیبہ رضی اللہ"
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح عبید اللہ بن جحش سے ہوا، دونوں ہی اسلام لانے کے بعد ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے- چند روز کے بعد عبید اللہ مرتد ہوکر عیسائی بن گیا مگر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا برابر اسلام پر قائم رہیں-
ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبید اللہ کے نصرانی ہونے سے پہلے آپ نے اس کو ایک نہایت بری طرح اور بھیانک شکل میں خواب میں دیکھا، بہت گھبرائی، صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ عیسائی ہوچکا ہے- میں نے خواب بیان کیا (شاید متنبہ ہوجائے) مگر کچھ توجہ نہیں کی اور شراب نوشی میں برابر منہمک رہا، حتی کہ اسی حالت میں مرگیا-
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عالم غربت میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بیوہ ہونے کی اطلاع ملی تو ایام عدت پورے ہونے کے بعد حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو نجاشی شاہ حبشہ کے پاس اسی غرض کے لئے بھیجا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے نکاح کا پیغا م دے- نجاشی نے اپنی ایک لونڈی کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیغام نکاح حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو بھیجا، انہیں بے حد مسرت ہوئی، اظہار مسرت میں لونڈی کو چاندی کی دو انگوٹھیاں، کنگن اور نقرئی انگوٹھیاں عطا کیں، اور خالد بن سعید بن العاص کو جو آپ کے ماموں کے بیٹے تھے، وکیل مقرر کیا- شام کو نجاشی نے حضرت جعفر بن ابو طالب اور دوسرے مسلمانوں کو بلاکر خود خطبہ نکاح پڑھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے 400 دینار مہر ادا کیا- رسم نکاح سے فراغت کے بعد حضرت خالد بن سعید نے سب کو کھانا کھلاکر رخصت کیا-
نکاح کے کچھ عرصہ بعد حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شراجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ام المومنین کا لقب پایا-
"حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ"
اللہ تعالی نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو نہایت صالح طبیعت عطا کی تھی، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح آپ کے چچازاد بھائی سکران بن عمر سے ہوا، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کا آغاز کیا تو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لائیں، اس طرح آپ کو قدیم الاسلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہے- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لانے کے بعد ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں، کئی برس وہاں رہ کر مکہ مکرمہ واپس لوٹے- چند دن بعد حضرت سکران رضی اللہ عنہ کے وصال سے پہلے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے ایک خواب دیکھا،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیدل چلتے ہوئے آپ کی طرف تشریف لائے اور ان کی گردن پر اپنا قدم مقدس رکھ دیا- جب حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اس خواب کو اپنے شوہر سکران بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اگر تمہارا یہ خواب سچا ہے تو میں یقیناً مرجاؤں گا اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تم سے نکاح فرمائیں گے- اس کے بعد دوسری رات حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے یہ خواب دیکھا کہ ایک چاند ٹوٹ کر ان کے پیٹ پر گرپڑا ہے، صبح سکران رضی اللہ عنہ سے اس خواب کا بھی ذکر کیا تو سکران بن عمر رضی اللہ عنہ نے چونک کر کہا اگر تمہارا یہ خواب سچا ہے تو میں اب بہت جلد انتقال کرجاؤں گا اور تم میرے بعد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکاح کرو گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا- اسی دن حضرت سکران رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے اور چند دنوں کے بعد وصال کرگئے- یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا وصال کرگئی تھیں، بن ماں کے بچوں کو دیکھ دیکھ کر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک افسردہ اور غمگین رہتی تھی، آپ کی یہ حالت دیکھ کر ایک جاں نثار صحابیہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے ایک دن بارگاہ نبوی میں عرض کی :حضور کو ایک مونس اور رفیق حیات چاہئیے- اگر اجازت ہو تو آپ کے نکاح ثانی کے لئے کہیں پیام دوں؟ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کے اس مخلصانہ مشورہ کو قبول فرمایا اور فرمایا کہ کس جگہ پیام دینے کا خیال ہے؟ خولہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اگر کنواری سے نکاح کرنا چاہیں تو آپ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں- اگر بیوہ سے چاہیں تو حضرت سودہ بنت زمعہ موجود ہیں، جو آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی اتباع کیں- آپ نے فرمایا دونوں جگہ پیام دے دو- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چونکہ قریب قریب ایک ہی زمانہ میں ہوا، مورخین میں اختلاف ہے کہ کس کو تقدم حاصل ہے- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا نکاح 10 نبوی میں ہوا نکاح کا خطبہ ان کے والد نے پڑھایا اور 400 درہم مہر مقرر ہوا- چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد امہات المومنین کے زمرے میں داخل ہوگئیں اور زندگی بھر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زوجیت کے شرف سے سرفراز رہیں اور انتہائی والہانہ عقیدت و محبت کے ساتھ آپ کی وفادار اور خدمت گزار رہیں-
"حضرت صفیہ بنت حی رضی اللہ"
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا باپ حُیی بن اخطب یہودیوں کے نامور قبیلے بنو نضیر کا سردار تھا۔ حُیی نبی کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنی قوم میں بیحد معزز تھا اور تمام قوم اسکی وجاہت کے آگے سر جھکاتی تھی۔
چودہ برس کی عمر میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی شادی یہود کے ایک نامور شہسوار اسلام بن مشکم القرظی سے ہوئی، لیکن دونوں میاں بیوی میں بن نہ پائی، نتیجتاً اسلام بن مشکم نے طلاق دے دی۔ اس طلاق کے بعد حُیی بن اخطب نے ان کا نکاح بنی قریظہ کے ایک مقتدر سردار کنانہ بن ابی الحُقیق سے کر دیا۔ وہ خیبر کے رئیس ابو رافع کا بھتیجا تھا اور خیبر کے قلعہ القموس کا حاکم تھا۔
فتح خیبر کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگا تو حضرت وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لیے پسند فرمایا۔ کیونکہ وہ تمام اسیران جنگ میں ذی وقعت تھیں اسلئے بعض صحابہ نے عرض کیا: ’’ یارسول اللہ! صفیہ بنی قریظہ اور بنو نضیر کی رئیسہ پے، خاندانی وقار اسکے بشرے سے عیاں ہے، وہ ہمارے سردار (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کیلئے موزوں ہے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشورہ قبول فرما لیا۔ وحیہ بن کلبی رضی اللہ عنہ کو دوسری لونڈی عطا فرما کر حضرت صفیہ کو آزاد کردیا اور انہیں یہ اختیار دیا کہ وہ چاہے اپنے گھر چلی جائیں یا پسند کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آجائیں۔ حضرت صفیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنا پسند کیا اور ان کے حسب منشاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔ صہبا کے مقام پر رسم عروسی ادا کی گئی اور وہیں دعوت ولیمہ بھی ہوئی۔ صہبا سے چلتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خود اپنے اونٹ پر سوار فرمایا اور خود اپنی عبا سے ان پر پردہ کیا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت سترہ برس کی تھی۔ اس نکاح کے بعد یہودی پھر مسلمانوں کے خلاف کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے۔ مدینہ پہنچ کر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حارث بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر اتارا۔ ان کے حسن و جمال کا شہرہ سن کر انصار کی عورتیں اور دوسری ازواج مطہّرات انہیں دیکھنے آئیں۔ جب دیکھ کر جانے لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے چلے اور حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا: ’’ عائشہ تم نے اس کو کیسا پایا؟‘‘ جواب دیا: ’’ یہودیہ ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ نہ کہو وہ مسلمان ہو گئی ہے اور اس کا اسلام اچھا اور بہتر ہے۔‘‘
"حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ"
آپ کو مقوقس کے شاہ اسکندریہ نے بطور نذرانہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، حضرت ماریہ مصر کی رئیس زادی تھیں، عزیز مصر، مقوقس نے قافلۂ ماریہ کو بڑے اہتمام اور عظیم الشان تحائف کے ساتھ رخصت کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قافلہ کا شاندار استقبال کیا اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو ام سلیم بنت ملحان کے گھر اتارا جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا واپسی میں راستہ میں حاطب بن بلتعہ کی دعوت اسلام سے مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی بہن سیرین بھی آئی تھیں، جن کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کردیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بھی ازواج مطہرات جیسا سلوک کرتے تھے۔
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بہت حسین و جمیل، نہایت خوش اخلاق اور بڑی دیندار خاتون تھیں.
" ألا لعنة الله على الكاذبين"


Saturday, January 7, 2017

AITRAAZ : KYA AURTAIN MUSALMO KE NAZDIK KAM AQAL HOTI HAI ?




اعتراض:مسلمانوں کے نزدیک عورت ناقص العقل ہے۔

ایک صحیح حدیث کو لے کر سیکولرلبرل ملحدین کی طرف سے یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کو ناقص العقل و دین سمجھا جاتا ہے۔۔ پہلے حدیث اور پھر اسکی تشریح پیش کی جاتی ہے۔
حدیث:
 حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحیٰ یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ عورتوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا : اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ کرو ، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔
 انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ، ایسا کیوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو ، باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے ، میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔
 عورتوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : کیا عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا : جی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا : کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے ، نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ عورتوں نے کہا : ایسا ہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کے دین کا نقصان ہے.
(صحيح بخاري ، كتاب الحیض ، باب : ترك الحائض الصوم ، حدیث : 305 )
تبصرہ :
 اس حدیث کو سمجھنے میں بنیادی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ اس میں ناقص سے اردو والا ناقص مراد لے لیا جاتا ہے جس کا مطلب نقص اور عیب دار ہونا ہے.. جبکہ یہاں عربی والا ناقص مراد ہے جس کا مطلب مقدار میں کم ہونا ہے ۔ دونوں کے مطالب میں فرق کیفیت اور کمیت (مقدار) کا ہے۔
 یوں حدیث کے مطابق ناقصات الدین سے مراد یہ ہے کہ عورت کے بعض ایام ایسے آتے ہیں کہ جس میں وہ دین پر عمل نہیں کرسکتی، نماز اور روزے نہیں رکھتی اس طرح اس کے دینی عمل میں کمی رہ جاتی ہے۔
 اسی طرح عقل کے ناقص کی وضاحت میں فرمایا کہ خدا نے دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دیا ہے ۔اس سے بھی کمیت مراد ہے نہ کہ کیفیت… کیونکہ دو آدھے ایک کامل صحیح کے برابر تو ہوسکتے ہیں لیکن دو آدھے عیب دار ایک صحیح کے مساوی نہیں ہوسکتے.۔!
عورت کی گواہی آدھی کے متعلق وضاحت پہلے ان تحاریر میں پیش کی جاچکی ہے۔
مزید عقل کی دو قسمیں ہیں: 
۱:․․․عقل شرعی، ۲۲:․․․عقل عرفی۔عورتوں میں عقل عرفی بہت اعلی درجے کی ہے۔ شریعت نے عورتوں کے ناقصات العقل سے مراد عقل شرعی ہے، عقل عرفی عورتوں میں بہت زیادہ ہوتی ہے، خود حدیث میں اس کا ذکر ہے کہ یہ عورتیں ہوشیار مرد کو بھی بوتل میں اتارنے والیاں ہیں، گھر میں بھی اس کی حکومت چلتی ہے اور باہر بھی اس کی حکومت چلتی ہے۔ ۔۔عقل شرعی کی کمی ہوتی ہے، اور عقل شرعی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نتائج کو نہ سوچے، جب آدمی نتیجے پر غور نہیں کرتا تو اسے نقصان ہوتا ہے، جیسے عورت یہ کہتی ہے کہ فلاں موقع آرہا ہے اور اس پر ہمیں اتنا خرچ کرنا ہے، ختنے میں اتنا خرچ کرنا ہے، شادی میں اتنا خرچ کرنا اور منگنی میں اتنا خرچ کرنا ہے، اور فلاں رسم اس طرح ہونا چاہئے، تو شوہر اور باپ کے مال کو انہی چیزوں میں اڑاتی ہیں، اس معنیٰ میں ان کو ناقصات العقل کہا گیا ہے کہ نتائج کو وہ نہیں سوچتیں۔
سیکولر لبرل اور ملحدین اس حدیث کو لے کر مذہبی لوگوں کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ وہ عورت کو ناقص العقل سمجھتے ہیں’ خود یہ ‘ایجوکیٹڈ’ سیکولر لبرل عورت کی کتنی قدر کرتی ھے اور انکی محافل میں عورت کو کیسے کیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے اور کیسی نظروں سے دیکھا بلکہ گھورا جاتا ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ مذہبی لوگوں کے ہاں عورت کا تقدس ہے، اہمیت ہے اسکو اپنی عزت سمجھا جاتا ہے ، عورت کی نیلامی نہیں کی جاتی، بھرے ہالوں میں نچوا نچوا کے پامال نہیں کیا جاتا، یوں نوچ نوچ کھانے والی گدھ بن کر شب وروز تاڑا نہیں جاتا۔۔۔
روشن خیال لوگو! تمھارے سیاہ کرتوت کتنے بتا پاؤں گا۔ قطار در قطار لپکتے آرھے۔ پر قلم شرماگیا ہے۔ تم عورت کو ھر طرح عریاں کرنے سے نہ ھچکچائے ۔۔ یہ قلم عیاں کو مزید بیاں کرنے سے ڈگمگاگیا ہے۔

Thursday, October 6, 2016

hijab : aurat ki zinat ya qaid


اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 13
کیا حجاب عورت کا استحصال نہیں؟
"اسلام عورت کو پردے میں رکھ کر اس کی حیثیت کیوں گھٹاتا ہے؟ "
سیکولر میڈیا میں اسلام میں عورت کی حیثیت کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حجاب یا اسلامی لباس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ عورت اسلامی شریعت کی محکوم اور باندی ہے۔ اس سے پہلے کہ اسلام کے حجاب کے حکم کا تجزیہ کریں، ہمیں اسلام سے پہلے کے معاشروں میں عورت کی حیثیت کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
زمانہ قدیم میں عورت کی حیثیت :
تاریخ سے لی گئی درج ذیل مثالیں واضح کرتی ہیں کہ قدیم تہذیبوں میں عورت کی حیثیت نہایت بے وقعت تھی اور اسے محض شہوانیی جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا حتی کہ اسے بنیادی انسانی شرف و عزت سے بھی محروم کردیا گیا تھا۔
بابل کی تہذیب:
اس تہذہب میں عورتوں کو گھٹیا سمجھا جاتا اور بابلی قوانین کے تحت وہ تمام حقوق سے محروم تھیں۔ اگر ایک آدمی قتل کا مرتکب ہوتا تو بجائے اس کے کہ اُسی کو سزا ملے، اس کی بیوی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔
یونانی تہذیب:
یونانی کو قدیم تہذیبوں میں بہترین اور شاندار تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ اس "شاندار" تہذہب میں عورت تمام حقوق سے محروم تھی اور اسے حقیر سمجھا جاتا تھا۔ یونانی دیومالائی کہانیوں میں ایک خیالی عورت جسے " پنڈورا" کہا جاتا تھا، اُسے انسانوں کی بدقسمتی کی بنیادی وجہ خیال کیا جاتا تھا۔ یونانی لوگ عورت کو مرد سے بہت کمتر سمجھتے تھے۔ اگرچہ عورت کی دوشیزگی کو قیمتی سمجھا جاتا اور عورتوں کو اس حوالے سے خاصی اہمیت دی جاتی تھی لیکن بعد میں یونانی تہذیب پر بھی انانیت اور جنسی بے راہ روی چھا گئی اور اس تہذیب میں ذوقِ طوائفیت عالم ہوگیا۔
رومی تہذیب:
جب رومی تہذیب اپنی "عظمت" کی بلندیوں پر تھی، ایک مرد کو یہ اختیار بھی حاصل تھا کہ وہ اپنی بیوری کی جان لے سکتا تھا، طوائف بازی اور عریانیت اس معاشرے میں عام تھی۔
مصری تہذیب:
یہ تہذیب عورت کو مجسم برائی سمجھتی اور اُسے شیطنت کو علامت گردانتی تھی۔
اسلام سے پہلے عرب کی تہذیب:
عرب میں اسلام آنے سے پہلے عورت کو بہت حقیر سمجھا جاتا تھا اور جب لڑکی پیدا ہوتی تو اُسے بالعموم زندہ دفن کردیا جاتا۔
اسلام نے عورت کو مساوی درجہ دیا :
اسلام نے عورت کو برابری کا درجہد یا۔ اس کے حقوق کا تیون 1400 سال پہلے کردیا اوروہ توقع کرتا ہے کہ عورت اپنا یہ درجہ برقرار رکھے۔
مردوں کا حجاب :
لوگ عام طور پر "حجاب " کو عورتوں کو تناظر میں زیر بحث لاتے ہیں لیکن قرآن عظیم میں اللہ تعالی مردوں کے حجاب کو عورتوں کے حجاب سے پہلے بیان کرتا ہے۔ سورۃ نور میں بیان کیا گیا ہے:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (٣٠)
" اور ایمان والوں سے کہ دیجیئے کہ وہ اپنی نگاہوں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کیلئے پاکیزگی کی بات ہے، اور اللہ اس کی خوب خبر رکھتا ہے۔ جو کام تم کرتے ہو۔
( سورۃ النور 24 آیت 30)
لہذا جب ایک مرد کی نگاہ کسی غیر محرم خاتون پر پڑے تو اسے اپنی نظر جھکا لینی چاہیئے۔
سورۃ النور کی اگلی آیت میں ہے:
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الإرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (٣١)
" اور ایمان والی عورتوں سے کہ دیجیئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگھار کی نمائش نہ کریں۔ سوائے اس ککے جو ( از خود ) ظاہرہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنے سنگھار کی نمائش نہ کریں۔ مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ دادا پر یا اپنے شوروں کے باپ دادا پر یا اپنے بیٹیوں پر یا اپنے شوہروں کے ( سوتیلے ) بیٹیوں پر، اپنے بھائیروں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی ( مسلمان ) عورتوں پر یا اپنے دائیں ہاتھ کی ملکیت ( کنیزوں ) پر یا عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے نوکر چاکر مردوں پر یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی چھپی باتوں سے واقف نہ ہوں۔
( سورۃ النور 24 آیت 31)
حجاب کا معیار :
قرآن و سنت کے مطابق پردے کے لیے چھ بنیادی معیار ہیں :-
پہلا معیار یہ ہے کہ جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا چاہیئے۔ یہ عورتوں اور مردوں کے لیئے مختلف ہے۔ مرد کے لیئے یہ معیار ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے جبکہ عورتوں کے لیئے تما جسم کا ڈھانپنا لازم ہے سوائے چہرے اور کلائی تک ہاتھوں کے، اور اگر ان کی خواہش ہو تو جسم کے ان حصوں کو بھی ڈھانپ سکتی ہیں۔بعض علمائے کرام کے نززیک ہاتھ اور چہرہ بھی لازمی پردے میں شامل ہیں۔ ( اوریہی بات راجح )۔
علاوہ ازیں مردوں اور عورتوں کے لیئے حجاب کےک پانچ یکساں معیار ہیں :-
1) کپڑے جو پہنے جائیں وہ ڈھیلے ڈھالے ہوں جو جسمانی اعضاء کو نمایاں نہ کریں۔
2) کپڑے اتنے باریک نہ ہوں کہ ان میں سے سب کچھ نظر آئے یا آسانی سے دیکھا جا سکے۔
3) لباس اتنا شوخ نہ ہو جو جنسِ مخالت کے مشابہ ہو ( یعنی عورتیں مردوں جیسے کپڑے نہ پہنیں اور مردوں کو چاہیئے کہ عورتوں جیسا لباس نہ پہنیں )۔
4) لباس غیر مسلموں کے لباس سے مشابہ نہ ہو، یعنی ایسا لباس نہ پہنیں جو غیر مسلموں کی مذہبی شناخت اور مخصوس علامت ہو۔
5) حجاب میں اخلاق اور شخصی طرز عمل بھی شامل ہیں۔
مکمل حجاب میں ان چھ بینادی معیاروں کے علاوہ اخلاقی کردار، سماجی رویے، وضع قطع اور شخصی ارادے کا بھی دخل ہے۔ حجاب کو صرف لباس کے معیار کی حد تک سمجھنا محدود سوچ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آنکھوں، دِل، سوچ اور ارادے اور نیت کا حجاب بھی ضروری ہے۔ اس میں انسان کے چلنے کا طریقہ، گفتگو کا سلیقہ اور رویے کا اظہار بھی شامل ہے۔
حفاظتی حصار :
حجاب چھیڑ چھاڑ سے بچاتا ہے، آخر عورت کے لیئے پردے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اس کی وجہ سورۃ الاحزاب میں بیان کی گئی ہے۔ اِرشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (٥٩)
" اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہ دیجیئے کہ وہ ( گھر سے باہر ) اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو گرا لیا کریں۔ یہ ( بات ) ان کے لیئے قریب تر ہے کہ وہ ( حیا دار مومنات کے طور پر ) پہچانی جاسکیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے ( کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرسکے ) اور اللہ بہت معاف کرنے والا اور نہایت مہربان ہے"
( سورۃ الاحزاب 33 آیت 59)
قرآن سے واضح ہے کہ عورتوں کو پردے کا حکم اس لیئے دیا گیا ہے کہ وہ باحیا عورتوں کی حیثیت سے پہچانی جائیں اور مردوں کی شرارتوں اور چھیڑ خانیوں سے محفوظ رہیں۔
مغرب میں عورت کا استحصال :
مغربی تہذیب عورت کی جس آزادی اور آزاد خیالی کی بلند آہنگ وکالت کرتی ہے وہ اس کے جسمانی استحصال، اس کی روحانی تحقیر اور اس کی عزت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں، مغربی تہذیب عورت کا درجہ بلند کرنے کا بڑا چرچا کرتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، واقعہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے عورت کی عزت کو پامال کردیا ہے۔ اُسے عورت کے شرف و منزلت سے گرا دیا ہے ، اُسے داشتہ اور محبوبہ بنا دیا ہے۔ مغربی تہذیب میں عورت، عورت نہیں ہے۔ رنگین تتلی ہے، حصول لذت کا کھلونا ہے، مغرب نے عورت کو نیلام کا مال بنا دیا ہے، نام نہاد " فن" اور " ثقافت " کی آر میں عورت کا شرمناک استحصال کیا جارہا ہے۔
امریکہ میں ریپ :
امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے لیکن دنیا بھر میں عورتوں کی سب سے زیادہ آبروریزی بھی وہیں ہوتی ہے۔ ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں صرف 1990ء میں روزانہ عصمت دری کے اوسطاً 1756 مقدمات درج ہوئے۔ بعد کی ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں روزانہ تقریباً 1900 کی اوسط سے عصمت دری کے واقعات پیش آئے۔ سال نہیں بتایا گیا۔ ہوسکتا ہے 1992ء یا 1993ء ہو، مزید برآں ہوسکتا ہے اس کے بعد امریکی جبری بدکاریوں میں اور زیادہ نڈر ہوگئے ہوں۔ ذرا چشم تصور سے دیکھیئے:
میں آپ کے سامنے امریکہ کا ایک منظر پیش کرتا ہوں جہاں مسلم خاندانوں میں پردہ کیا جاتا ہے۔ جب بھی کوئی آدمی کسی عورت کو پردے میں یا اسلامی حجاب میں بُری نگاۃ سے دیکھتا ہے یا کوئی شرمناک خیال اُس کے ذہن میں آتا ہے تو وہ اپنی نگاہ نیچی کرلیتا ہے۔ ہر عورت اسلامی حجاب پہنتی ہے جس میں اس کا تمام جسم ڈھکا ہوا ہے سوائے چہرے اور کلائی تک ہاتھوں کے ، اس کے بعد اگر کوئی زنا بالجبر کرتا ہے تو اُسے سزائے موت دی جاتی ہے۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا اس پس منظر میں امریکہ میں عصمت دری کے واقعات بڑھیں گے ، اسی طرح رہیں گے، یا کم ہوجائیں گے۔
اسلامی شریعت کا نفاذ :
فطری طور پر اسلامی شریعت کا نفاذ ہوتے ہی مثبت نتائج ناگزیر ہوں گے۔ اگر دنیا کے کسی بھی ملک میں چاہے وہ امریکہ ہو یا یورپ، اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جائے تو معاشرہ سکون کا سانس لے گا۔ اسلامی حجاب عورت کا مرتبہ کم نہیں کرتا بلکہ اونچا کرتا ہے اور اس کی حیاداری اور 
   پاکدامنی کی حفاظت کا ضامن ہے۔

بینجامن  مہر 

Wednesday, September 21, 2016

ISLAM ME HIJDO ( mukhannas ) KI SHARIYAT



خواجہ سرا ( ہجڈا) اور ہمارا معاشرہ





نیم سائنسدان جناب غالب کمال صاحب جیسے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے ہجڑوں ( خواجہ سراوں ) کو حقوق نہیں دیئے وہ دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نےاپنے معاشرے میں پھیلے ہوئے اس گندے کلچر کو معاذ اللہ اسلام سمجھ لیا ہے ، ہمارے معاشرے میں کسی گھر میں اگر کوئی خواجہ سرا پیدا ہوجائے تو اس کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے تو کیا یہ اسلامی حکم ہےیا یہ ہماری جہالت ہے ، کس عالم مفتی نے فتوی دیا ہے کہ کوئی نامرد پیدا ہوتو اس کو گھر سے نکال دیا جائے؟؟اسلام تو ان کو میراث میں بھی شریک کرنے کا حکم دیتا ہے ، ان بیچاروں کے لئے روزگار کے ذرائع بند کردیئے گئے تو کیا یہ اسلامی حکم سمجھ کر کیا گیا ہے ؟؟ کس مفتی اور کس عالم نے فتوی دیا کہ ان لوگوں کا کام کرنا حرام ہے؟؟ اپنی جہالتوں کو اسلام کا لیبل لگا کر اسلام پر اعتراضات یہ تمھاری جہالت ہے ، کسی کا ہیجڑا پیدا ہونا یہ اللہ کی طرف سے ہی ہے اس کے لئے بھی شریعت کے احکامات ہیں وہ بھی احکامات کا مکلف ہے ، ان بیچارے خواجہ سراوں کو ہمارے معاشرےنے بند لگی میں دھکیلا ہے جو کہ ظلم ہے ، باقی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بعض مرد عورتوں کی مشابھت اختیار کرتے ہیں اور اپنی چال اور گفتار کو عورتوں کی طرح بناتے ہیں اور ناچ گانا کرتے ہیں یہ ہیچڑے نہیں بلکہ مخنث ہیں ان پر اللہ کے رسول نے لعنت بھیجی ہے ، یعنی وہ مرد جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں وہ ملعون ہیں ، ہمارے معاشرے میں اکثریت مردوں کی ہے جنھوں نے یہ پیشہ اختیار کیا ہوا ہے اور یہ غلط کاموں میں بھی ملوث ہوتے ہیں ، اس لئے ان کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ، لیکن اگر کوئی قدرتی طور پر اس طرح پیدا ہو اور وہ عفت اور پاکدامنی سے زندگی گزار رہا ہے تو بلاشبہ وہ اجر و ثواب کے لحاظ سے مردوں سے بھی سبقت لے جائے گا کیونکہ اس نے پوری زندگی صبر اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی حالات میں گزاری ہے ، یہ لوگ قابل نفرت و ملامت ہرگز نہیں ۔ بلکہ ان کے ساتھ محبت کا تعلق اور ان کی دلجوئی کرنی چاہیے کہ کہیں یہ اپنے آپ کو معاشرے سے الگ تصور کرکے اچھوتوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں ۔

ایسی مخلوق کو عربی میں مخنث اور اردو میں ہیجڑا یا کھسرا کہا جاتا ہے۔ اور ایسی خلقت والے لوگ آج کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی موجود تھے،اور شریعت میں ایسے لوگوں کے حوالے سے تفصیلی راہنمائی موجود ہے،فقہائے کرام نے اپنی کتب فقہ میں ایسے لوگوں کے حوالے سے تفصیلی مباحث بیان فرمائی ہیں۔

اب آتے ہیں غالب کمال کے مین سوال کی طرف کہ اللہ نے مرد و عورت کا زکر تو کر دیا مگر ہیجڑے کا زکر کیوں نہیں کیا؟ مرد اور عورت کی جنس میں ہیجڑے کا بھی زکر ہونا چاہیے تھا۔ کہتے ہیں نیم حکیم خطرہ جان ، اسی طرح نیم سائنسدان خطرہ ایمان :) محترم غالب کمال صاحب نے ہیجڑے کو بھی جینڈر یعنی جنس میں شامل کر دیا ہے اور ان کے بقول تین جنسیں ہو گئیں مرد، عورت اور ہیجڑا۔ مگر لگتا ہے موصوف نے سائنس کو صرف دیکھا ہے پڑھا نہیں۔ 

یہ کوئ نئ جنس نہیں بلکہ ایک بیماری کا نام ہے جسے Klinefelter syndrome  کلِنفیلٹر سنڈروم کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک سنڈروم یعنی بیماری ہے تو اس کا الگ سے جنس کا تعین کرنا چہ معنی دارد۔ اصل میں می اوسس ۱ میں جب کروموسومز کا تبادلہ ہوتا ہے تو نارملی مرد کا x یا yکروموسوم عورت کے x کروموسوم کو فرٹیلائز کرتا ہے۔ اگر xx مل جائیں تو عورت اور XY ملیں تو مرد ہوتا ہے۔ 

مگر اس سنڈروم میں کسی وجہ سے می اوسس   (Meiosis) کے دوران کروموسومز الگ نہیں ہو پاتے۔ اس وجہ سے مرد کا XY کروموسوم عورت کے x کو یا مرد کا y عورت کے xx کو فرٹیلائز کر سکتا ہے جس سے xxy کروموسوم والا جاندار بنے گا۔ اس بیماری کو ہیری کلِنفیلٹر نے دریافت کیا جس کی بنا پر اس کا نام رکھا گیا۔  ای میڈیکل میں اس کو ایک بیماری کے طور ہر رجسٹر کیا گیا ہے جس کا نمبر ped/1252 ہے۔ یہ صرف پانچ سو میں اسے ایک شخص یا ہزار میں سے ایک شخص کو ہوتی ہے۔ اب یہ مطالبہ کرنا کہ اس کی بنیاد پر مرد ، عورت اور ہیجڑے کی مختلف جنسیں بنا کر پیش کی جائیں سواۓ جہالت کے اور کچھ نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اللہ نے کسی کو اندھا پیدا کیا ، کسی کو لنگڑا۔ اب ان جیسے خود کار سائنسدان اٹھ کر یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھو نعوز باللہ اللہ سے بھول ہو گئ اور اس کو اندھا پیدا کو دیا۔ ارے بھئ یہ بھی ایک بیماری ہے جو اللہ کی طرف سے امتحان ہے بالکل اس طرح جیسے کہ مخنس ہے۔ پہلے تو سائنس میں اس کو بیماری کی کیٹگری سے ہٹا کر جنس کی کیٹگری میں لاؤ پھر آ کر اعتراض کرنا کہ اس جنس کا زکر نہیں کیا۔ غالب کمال کا پہلا بہت مزیدار جملہ کہ "اللہ نے جنت میں مرد و عورت پیدا کیے تو یہ کمبخت ہیجڑا کہاں سے آ گیا" ،            صاحب جنت میں یہ سنڈروم نہیں نہ میاوسس ۱ نہ می اوسس ۲۔  

مگر شریعت اسلام نے پھر بھی ان کی ظاہری صورتحال کو مدنظر رکھ کر ان کے حقوق متعین کیے ہیں۔ 

1
ـ خنثى لغت عرب ميں اس شخص كو كہتے ہيں جو نہ تو خالص مرد ہو اور نہ ہى خالص عورت، يا پھر وہ شخص جس ميں مرد و عورت دونوں كے اعضاء ہوں ، يہ خنث سے ماخوذ ہے جس كا معنىٰ نرمى اور كسر ہے، كہا جاتا ہے خنثت الشئ فتخنث، يعنى: ميں نے اسے نرم كيا تو وہ نرم ہو گئى، اور الخنث اسم ہے.

اور اصطلاح ميں: اس شخص كو كہتے ہيں جس ميں مرد و عورت دونوں كے آلہ تناسل ہوں، يا پھر جسے اصل ميں كچھ بھى نہ ہو، اور صرف پيشاب نكلنے والا سوراخ ہو.

2 ـ اور المخنث: نون پر زبر كے ساتھ: اس كو كہتے ہيں جو كلام اور حركات و سكنات اور نظر ميں عورت كى طرح نرمى ركھے، اس كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

جو پيدائشى طور پر ہى ايسا ہو، اس پر كوئى گناہ نہيں.

دوسرى قسم:

جو پيدائشى تو ايسا نہيں، بلكہ حركات و سكنات اور كلام ميں عورتوں سے مشابہت اختيار كرے، تو ايسے شخص كے متعلق صحيح احاديث ميں لعنت وارد ہے، خنثى كے برخلاف مخنث كے ذكر يعنى نر ہونے ميں كوئى اخفاء نہيں ہے.

3 ـ خنثى كى دو قسميں ہيں: منثى مشكل اور خنثى غير مشكل.

ا ـ خنثى غير مشكل:

جس ميں مرد يا عورت كى علامات پائى جائيں، اور يہ معلوم ہو جائے كہ يہ مرد ہے يا عورت، تو يہ خنثى مشكل نہيں ہو گا، بلكہ يہ مرد ہے اور اس ميں زائد خلقت پائى جاتى ہے، يا پھر يہ عورت ہو گى جس ميں كچھ زائد اشياء ہيں، اور اس كے متعلق اس كى وراثت اور باقى سارے احكام ميں اس كا حكم اس كے مطابق ہو گا جس طرح كى علامات ظاہر ہونگى.

ب ـ خنثى مشكل:

يہ وہ ہے جس ميں نہ تو مرد اور نہ ہى عورت كى علامات ظاہر ہوں، اور يہ معلوم نہ ہو سكے كہ يہ مرد ہے يا عورت، يا پھر اس كى علامات ميں تعارض پايا جائے.

تو اس سے يہ حاصل ہوا كہ خنثى مشكل كى دو قسميں ہيں:

ايك تو وہ جس كو دونوں آلے ہوں، اور اس ميں علامات بھى برابر ہوں، اور ايك ايسى قسم جس ميں دونوں ميں سے كوئى بھى آلہ نہ ہو بلكہ صرف سوراخ ہو.

4 ـ جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ اگر بلوغت سے قبل خنثى ذكر سے پيشاب كرے تو يہ بچہ ہوگا، اور اگر فرج سے پيشاب كرے تو يہ بچى ہے.

اور بلوغت كے بعد درج ذيل اسباب ميں سے كسى ايك سے واضح ہو جائيگا:

اگر تو اس كى داڑھى آ گئى، يا پھر ذكر سے منى ٹپكى، يا پھر كى عورت كو حاملہ كر ديا، يا اس تك پہنچ گيا تو يہ مرد ہے، اور اسى طرح اس ميں بہادرى و شجاعت كا آنا، اور دشمن پر حملہ آور ہونا بھى اس كى مردانگى كى دليل ہے، جيسا كہ علامہ سيوطى نے اسنوى سے نقل كيا ہے.

اور اگر اس كے پستان ظاہر ہو گئے، يا اس سے دودھ نكل آيا، يا پھر حيض آ گيا، يا اس سےجماع كرنا ممكن ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر اسے ولادت بھى ہو جائے تو يہ عورت كى قطعيت پر دلالت كرتى ہے، اسے باقى سب معارض علامات پر مقدم كيا جائےگا.

اور رہا ميلان كا مسئلہ تو اگر ان سابقہ نشانيوں سے عاجز ہو تو پھر ميلان سے استدلال كيا جائيگا، چنانچہ اگر وہ مردوں كى طرف مائل ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر وہ عورتوں كى طرف مائل ہو تو يہ مرد ہے، اور اگر وہ كہے كہ ميں دونوں كى طرف ايك جيسا ہى مائل ہوں، يا پھر ميں دونوں ميں سے كسى كى طرف بھى مائل نہيں تو پھر يہ مشكل ہے. مگر یہ ایسا نہیں کہ جہاں اللہ تعالی مرد و عورت کا زکر کریں وہاں اس کا زکر بھی ہو۔ یہ جینیٹک سنڈروم ہے اور مخنث کو ان کیٹگریز کے حساب سے ان کے حقوق متعین کیے جائیں گے۔ 

اور اگر غالب کمال صاحب اس حساب سے ہیجڑوں کی جینڈر سپیسفسٹی gender specificity کے بارے میں کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو ہم حاضر ہیں۔ :)

Wednesday, September 7, 2016

kya aurat fitna hai ?

کیا عورت فتنہ ہے!؟ 


ــــــــ۔۔ــــــــــ­۔ـــــــ۔۔ــــــــــ­۔۔ــــ۔۔۔۔ــــ۔۔ــــ­ــــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر نقصان دینے والا اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے ۔ (بخاری و مسلم)
بہت سی خواتین اس حدیث کی غلط تشریح پر بھی بدظن ہو گئ ہونگی... لیکن خیر... خواتین کو چیں بہ جبیں ہونے کی ضرورت نہیں... کیونکہ اس میں خواتین کو براہِ راست فتنہ نہیں کہا گیا... بلکہ مردوں کیلئے فتنہ کہا گیا ہے... مطلب یہ کہ اگر کسی دوائی کا کسی بندے پر نتیجہ برا نکلتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوائی بری ہے... مرد کیلئے وہی عورت صحیح ہے جو اس کی منکوحہ ہے... باقی سب اس کیلئے فتنے کے ضمن میں ہی آئینگی... وہ سب جو نامحرم ہیں... چاہے وہ کتنی ہی نیک اور اچھی کیوں نہ ہوں... لیکن یہ بات دھیان میں رہے کہ کچھ دوائیاں فی الواقع بری ہی ہوتی ہیں... نشہ آور...!
آپ سمجھ رہے ہونگے کہ یہ عورتوں کے ساتھ اسلام کا امتیازی سلوک ہے... اور یہ بھی کہ مسئلہ مردوں کے ساتھ ہے اور بات عورتوں کی کی گئی ہے... نہیں... بالکل بھی نہیں... جبکہ اسلام میں تو دنیا کی بہترین متاع، نیک عورت کو گردانا گیا ہے... ایک اور وجہ اس کی یہ ہے کہ عورتوں کی بابت تو حدیث میں مذکور ہے جبکہ مردوں کے بارے قرآن میں بیان ہے... اور یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن کو حدیث پر فوقیت بہ ہر حال حاصل ہے... ایسے مردوں کو سورۃ الاحزاب میں کہا گیا ہے کہ انکے دلوں میں مرض ہوتا ہے... اور عورتوں کو ان سے ہوشیار رہنا چاہیے...! (فی قلوبھم مرض - الاحزاب)
لیلی، مجنوں، ہیر، رانجھا جیسی امثلہ، جنھیں بہت زیادہ پھیلایا گیا ہے۔۔۔ ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر صنفِ نازک مرد کے ذہن پر حاوی ہو جائے، تو نتیجہ بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ اور اس طرح کی مثالیں تو بکثرت ہیں ہمارے معاشرے میں جب کسی مرد کے ذہن پر بیوی، بہن یا ماں حاوی ہو تو باقیوں کو (خاص طور پر دوسری کسی عورت کو ہی) کیسے بھگتنا پڑتا ہے۔۔۔!
اب آتے ہیں کہ فتنہ کہا کیوں گیا...!؟ قرآن میں سورہ آل عمران کے شروع میں 'لوگوں' کی خواہش کی جو جو چیزیں گنوائی گئی ہیں ان میں خواتین سب سے پہلے گنوائی گئی ہیں... ایک تو سطحی حسن ہی بہت زیادہ بڑی چیز ہے جو دماغ کے ساتھ ساتھ نفس کی چولیں بھی ڈھیلی کر کے رکھ دیتا ہے جس سے رال بہنے میں فی الواقع دیر نہیں لگتی... لیکن محض ظاہری چیزیں بھی مردوں کو نہیں کھینچتیں... بلکہ آواز، معصومیت اور اسکے علاوہ ہر بندے کی اپنی جمالیاتی حس کے مطابق عورت اسکو اچھی لگتی ہے... کچھ عورتیں تو اپنے آپکو ابھارتی ہی اس طرح ہیں کہ وہ ہر مرد کیلئے فتنہ ہوتی ہیں... چمک، دمک دیکھ کر کون نہ بہکے گا... لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں فقط بہکانے کیلئے بنتی سنورتی ہیں... بلکہ بہت سی ایسی بھی ہوتی ہیں جو محض اپنے لئے یہ سب کرتی ہیں اور انکے پیشِ نظر ایسا کوئی بھی مذموم ارادہ نہیں ہوتا کہ مردوں کو بہکائیں... مگر قصوروار وہ بھی ہیں... انکی نیت سے مردوں کی نیت میں کیوں فرق آنے لگا... وہ تو اپنی ڈگر ہی ناپینگے... اس طرح قصوروار وہ بھی ہیں گو کہ مطمحِ نظر انکا شمال بننا نہیں... کیونکہ ایک معاشرے میں رہتے ہوئے پورے معاشرے کا حق، ذاتی اور انفرادی حق سے بڑھ کر ہی ہوتا ہے...!
اسی طرح ایک خاص وقت آتا ہے جب مردوں کیلئے، جو مذہبی رجحان رکھتے ہیں، یہ غیر اسلامی لباس والی بالکل پھیکی ہو جاتی ہیں... اور انھیں پردوں، برقعوں والی ہی پسند آنی شروع ہو جاتی ہیں... انھیں کشش انھی میں نظر آتی ہے... کیونکہ عورت کی خواہش مرد میں پہلے ہی رکھ دی گئی ہے... جو پیسوں کے پیچھے بھاگتے ہیں وہ بھی پیسوں سے یہی کچھ کرتے ہیں... عرصہ ہوا سنا تھا کہ رب جس سے ناراض ہو اسے عورتوں کے فتنے میں مبتلا کر دیتا ہے... صحیح سنا تھا... بےشک عورتیں اس کی طرف دھیان دیں یا نہ دیں... وہ ہمہ وقت ان ہی کے خیالات میں منہمک رہتا ہے... انہی کے پیچھے دوڑتا ہے... کتوں کی مانند چاہے ہڈی ملے یا نہ ملے اسکی زبان باہر ہی نکلی رہتی ہے... اسکی ایک مثال جون ایلیا کی بات سے ہی دی جا سکتی ہے جو سارے نہیں تو اکثر مردوں کا مرض ہے، جون سمیت:
"کسی بھی حسین عورت کو کسی مرد کے ساتھ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے میری ذاتی حق تلفی ہوئی ہو...!"
عورتوں کی نسبت مردوں کا ذہن عجب ہئیت کا حامل ہوتا ہے... عام طور پر مرد جب صنفِ نازک کو دیکھتے ہیں تو انکی کھوپڑی میں فلسفہ پکنا شروع ہو جاتا ہے... اور اس پھلسپھے کو جذبات کی آگ سے دہکایا جائے نفس کا چمچ ہلا کر تو جو منصوبہ بنتا ہے وہ بہت خطرناک ہوتا ہے... اسی وجہ سے تو عورتوں کو ظاہری آرائش و زیبائش تو کجا خوشبو وغیرہ لگا کر باہر نکلنے کی بھی ممانعت کی گئی ہے... یہاں تک کہ نماز بھی گھر میں ادا کرنے کو افضل کہا گیا ہے... مولانا عامر عثمانی المعروف ملا ابن العرب مکی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول عورت ایک ایسا برمہ ہے جو سو سال پرانی کھوپڑی میں بھی سوراخ کر سکتا ہے... اس قول کی روشنی میں زیادہ تر مردوں کی کھوپڑی فی الواقع اٹھارویں سال ہی چھلنی ہو چکی ہوتی ہے...!
ماحصل اس تمام بات کا یہ ہے کہ... بہت بری اور بہت اچھی عورتوں کو پتا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح مردوں کیلئے فتنہ ہو سکتی ہیں... اس لئے وہ اسکا خاص طور پر خیال رکھتی ہیں... عام لڑکی کو نہیں معلوم ہوتا کہ حیا بذاتِ خود بہت پرکشش ہوتی ہے... اور مردوں کے جوشیلے، نوکیلے، نفسیلے، رسیلے، بہکیلے جذبات کو تلپٹ کر کے رکھ دیتی ہے... مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا اسی لیے حکم ہے... ایسے وقت میں ایک عورت ہوتے ہوئے یہ طرزِ عمل ہونا چاہئے کہ اوّل تو مرد ہمکلام ہونے کا شرف ہی حاصل کرتا ہوا کترائے غیر عورت سے... اور اگر کر بھی لے تو اسکا انداز معصوم اور نرم ہونے کی بجائے اتنا روکھا اور نپا تلا ہونا چاہیے کہ وہ مزید آگے نہ سوچ سکے اگر اسکے دل میں مرض ہو بھی... اور آخر میں جو سب سے زیادہ اہم بات ہے، دونوں اصناف کیلئے، وہ یہی ہے جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی... تو سنو... اگر تم میں حیا نہیں، تو جو جی میں آئے کرو...!
ھذا ماعندی... واللہ اعلم باصواب...!
ــــــــ۔۔ــــــــــ­۔۔ــــ۔۔۔۔ــــ۔۔ــــ­ــــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔
حوالہ جات:-
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، جَمِيعًا عَنِ الْمُعْتَمِرِ، قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ قَالَ أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، أَنَّهُمَا حَدَّثَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ ‏ "‏ مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِي النَّاسِ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ‏"‏.
(صحیح مسلم ٢٧٤١)
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ‏"‏‏.
(صحیح بخاری ٥٠٩٦)
Top of Form