Friday, February 16, 2018

IMHAAT UL MAUMINEEN PER SHIRK KA ILZAAM







وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
لقمان - 6
اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بیہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ( لوگوں کو) بے سمجھے خدا کے رستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزاء کرے یہی لوگ ہیں جن کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا
"حضرت خدیجہ رضی اللہ"
حضرت خدیجہ قریشی قبیلے کی ایک معزز خاتون تھیں اور اپنا سرمایہ بڑی سمجھ داری سے تجارت میں لگاتی تھیں۔ حکمت اور دانائی وافر ملی تھی۔ ایسی عفت مآب کہ طاھرہ (پاک دامن) لقب تھا۔ جاھلیت میں بھی اپنی فطرت اصلیہ کو بت پرستی یا شرک سے آلودہ نہیں کیا تھا۔ پہلی آسمانی کتابوں کا علم رکھتی تھیں، مردم شناسی کا ملکہ آپ کو ودیعت ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تجارت کے لیے وہ نبی علیہ السلام کا انتخاب کرتی ہیں اور تجارت کی غرض سے ملک شام کا جو سفر آپ کرتے ہیں وہ سب احوال اپنے وفادار خادم میسرہ سے سن کر سمجھ جاتی ہیں کہ آپ اس امت کے آخری نبی ہیں۔ نبی کی بیوی بننے کی سعادت سے آپ محروم نہیں ہونا چاہتی تھیں اس لیے دونوں خاندانوں کی رضا مندی سے آپ کا نکاح نبی علیہ السلام سے ہو جاتا ہے اور پندرہ برس بعد آپ پر پہلی وحی نازل ہوتی ہے۔ رسول اللہ وحی اترنے کی کیفیت سے گھبرا جاتے ہیں۔ اس وقت آپ کو ایک سچے ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت خدیجہ سے بڑھ کر آپ کا ہمدرد اور کون ہو سکتا تھا۔ آپ گھر لوٹتے ہیں اور فرماتے ہیں: زَمّلونی، دَثَّرونی مجھے جلدی سے لحاف اڑھا دو۔
وہ بڑی مستعدی سے آپ کو کمبل اڑھا دیتی ہیں اور آپ کے ساتھ بیٹھ جاتی ہیں اور مسلسل دلاسا دیتی رہتی ہیں۔ آپ جب پرسکون ہو جاتے ہیں تو غار حرا کا ماجرا من وعن سنا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے تو اپنی جان کی فکر ہے۔مگر حضرت خدیجہ فرماتی ہیں (کلاَّ) ایسا مت سوچیے۔
اِنَّکَ لَتصل الرحم وتصدق الحدیث وتحمل الکلّ وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق
(بھلا خدا ایسے شخص کو کیوں ہلاک کرے گا)
آپ رشتہ داری نبھاتے ہیں، سچ بولتے ہیں، ناتواں کو سہارا دیتے ہیں، نادار پر خرچ کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں اور مصائب میں لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں۔
حضرت خدیجہ کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا سلام پہنچانے خانہ نبوت میں تشریف لاتے ہیں، اور فرماتے ہیں: یا رسول اللّٰہ ھذہ خدیجہُ قد اتت، معھا اناء فیہ اِدام اَو طعام اَو شراب، فاذا ھی اَتَتک، فاقراعلیھا السلام من رَبَّہا ومنِیّ اے اللہ کے رسول، خدیجہ کچھ خوردونوش کا سامان لے کر آپ کے پاس آیا چاہتی ہیں، جب وہ آپ کے پاس پہنچ جائیں تو اُن سے اُن کے رب کا سلام کہیے اور میری طرف سے بھی سلام کہیے
عرشِ معلی سے اتری یہ تہنیت جب اپنے شوہر سے سنتی ہیں تو ایک بڑا پاکیزہ جملہ عرض کرتی ہیں۔ اِنَّ اللّٰہ ھو السلام اللہ تو خود سلام ہے (مجھ جیسی گناہ گار بندی کے لیے یہ مژدا!) (وعلی جبریل السلام) جبریل علیہ السلام پر سلام (وعلیک السلام) اور آپ پر سلام۔
"حضرت جویریہ رضی اللہ"
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے منقول ہے کہ سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بڑی شیریں ،ملیح اور صاحب حسن وجمال عورت تھیں ،جو کوئی اسے دیکھتا فریضۃ ہو جاتا تھا۔جنگ اور تقسیم غنا یم کے بعد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک سمندر کے کنارے میرے پاس تشریف فرماتھے کہ اچانک جویریہ نمودار ہوئیں مجھ پر آتش غیرت نے غلبہ کیا کہیں ایسا نہ ہو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف توجہ خاص مبذول فرمائیں اور اپنے حبالہ عقد میں لے آئیں ۔ جب جویریہ آئیں ۔ تو انھوں نے سب سے پہلی بات یہ کہی کہ یا رسول اللہ میں مسلمان ہو کر حاضر ہوئی ہوں ۔
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وانک رسولہ
اور میں حارث بن ابی ضرار کی بیٹی ہوں جو اس قبیلہ کا سردار اور پیشوا تھا ۔ اب لشکر اسلام کے ہاتھوں میں قید ہوں ۔ اور حضرت ثابت بن قیس کے حصہ میں آگئی ہوں ۔اور اس نے مجھے اتنے مال پر مکاتب (یعنی آقا کو مطلوبہ رقم ادا کرکے آزادی حاصل کرنا بنایا ہے میں اسے ادا نہیں کر سکتی میں امیّد رکھتی ہوں کہ میری اعانت فرمائی جائے تاکہ کتابت کی رقم ادا کر سکوں ۔ فرمایا : میں ادا کردونگا اور اس سے بھی بہتر تمھارے ساتھ سلوک کروں گا۔
انھوں نے کہا اس سے بہتر کیا ہوگا ۔
فرمایا کتابت کی رقم ادا کرکے تمھیں حبالہ عقد میں لاکر زوجیت کا شرف بخشوں گا۔ اس کے بعد کسی کو ثابت بن قیس کے پاس بھیجا کہ وہ کتابت کی رقم ادا کرے اس کے بعد ان کو آزاد کرکے حبالہ عقد میں لے آئے اور چار سو درہم مہر کا مقرر فرمایا. صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین نے جب جانا کہ آپ سید کائنات کی زوجیت میں آچکی ہیں تو باہم کہنے لگے ہمیں یہ زیب نہیں دیتا ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حرم کے اقربا کو قید و غلامی میں رکھیں ،اس کے بعد سب کو آزاد کردیا ،جن کی تعداد سو سے زیادہ تھی۔
ام المؤمنین سیدہ جویریہ فرماتی ہیں کہ بارگاہ رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہونے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ مدینہ طیبہ سے چاند چلتا ہوا میری آغوش میں اتر آیا ، یہ خواب کسی سے بھی بیان نہ کیا جب میں خواب سے بیدار ہوئی تو اس کی خود ہی کر لی جو الحمد اللہ پوری ہوئی۔
"حضرت میمونہ رضی اللہ"
پہلا نکاح مسعود بن عمرو عمیر ثقفی سے ہوا۔ انہوں نے کسی وجہ سے طلاق دے دی۔ پھر ابورُہم بن عبدالعزّیٰ کے نکاح میں آئیں۔ سنہ ۷ ہجری میں انہوں نے وفات پائی اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں۔ اسی سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کیلئے مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عم محترم حضرت عبّاس بن عبد المظلب نے میمونہ سے نکاح کرلینے کی تحریک کی۔سورہ احزاب کی آیت 50 اسی موقعہ پر نازل ہوئی. حضور صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہو گئے، چنانچہ احرام کی حالت میں ہی شوّال سنہ ۷ ہجری میں ۵۰۰ درہم حق مہر پر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔ عمرہ سے فارغ ہو کر رملہ سے دس میل کے فاصلے پر بمقام سرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کو لے کر اسی جگہ آ گئے اور یہیں رسم عروسی ادا ہوئی۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بیوی تھیں۔ یعنی ان سے نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات تک کوئی اور نکاح نہیں کیا۔
"حضرت ام حبیبہ رضی اللہ"
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح عبید اللہ بن جحش سے ہوا، دونوں ہی اسلام لانے کے بعد ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے- چند روز کے بعد عبید اللہ مرتد ہوکر عیسائی بن گیا مگر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا برابر اسلام پر قائم رہیں-
ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبید اللہ کے نصرانی ہونے سے پہلے آپ نے اس کو ایک نہایت بری طرح اور بھیانک شکل میں خواب میں دیکھا، بہت گھبرائی، صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ عیسائی ہوچکا ہے- میں نے خواب بیان کیا (شاید متنبہ ہوجائے) مگر کچھ توجہ نہیں کی اور شراب نوشی میں برابر منہمک رہا، حتی کہ اسی حالت میں مرگیا-
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عالم غربت میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بیوہ ہونے کی اطلاع ملی تو ایام عدت پورے ہونے کے بعد حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو نجاشی شاہ حبشہ کے پاس اسی غرض کے لئے بھیجا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے نکاح کا پیغا م دے- نجاشی نے اپنی ایک لونڈی کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیغام نکاح حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو بھیجا، انہیں بے حد مسرت ہوئی، اظہار مسرت میں لونڈی کو چاندی کی دو انگوٹھیاں، کنگن اور نقرئی انگوٹھیاں عطا کیں، اور خالد بن سعید بن العاص کو جو آپ کے ماموں کے بیٹے تھے، وکیل مقرر کیا- شام کو نجاشی نے حضرت جعفر بن ابو طالب اور دوسرے مسلمانوں کو بلاکر خود خطبہ نکاح پڑھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے 400 دینار مہر ادا کیا- رسم نکاح سے فراغت کے بعد حضرت خالد بن سعید نے سب کو کھانا کھلاکر رخصت کیا-
نکاح کے کچھ عرصہ بعد حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شراجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ام المومنین کا لقب پایا-
"حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ"
اللہ تعالی نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو نہایت صالح طبیعت عطا کی تھی، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح آپ کے چچازاد بھائی سکران بن عمر سے ہوا، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کا آغاز کیا تو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لائیں، اس طرح آپ کو قدیم الاسلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہے- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لانے کے بعد ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں، کئی برس وہاں رہ کر مکہ مکرمہ واپس لوٹے- چند دن بعد حضرت سکران رضی اللہ عنہ کے وصال سے پہلے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے ایک خواب دیکھا،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیدل چلتے ہوئے آپ کی طرف تشریف لائے اور ان کی گردن پر اپنا قدم مقدس رکھ دیا- جب حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اس خواب کو اپنے شوہر سکران بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اگر تمہارا یہ خواب سچا ہے تو میں یقیناً مرجاؤں گا اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تم سے نکاح فرمائیں گے- اس کے بعد دوسری رات حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے یہ خواب دیکھا کہ ایک چاند ٹوٹ کر ان کے پیٹ پر گرپڑا ہے، صبح سکران رضی اللہ عنہ سے اس خواب کا بھی ذکر کیا تو سکران بن عمر رضی اللہ عنہ نے چونک کر کہا اگر تمہارا یہ خواب سچا ہے تو میں اب بہت جلد انتقال کرجاؤں گا اور تم میرے بعد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکاح کرو گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا- اسی دن حضرت سکران رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے اور چند دنوں کے بعد وصال کرگئے- یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا وصال کرگئی تھیں، بن ماں کے بچوں کو دیکھ دیکھ کر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک افسردہ اور غمگین رہتی تھی، آپ کی یہ حالت دیکھ کر ایک جاں نثار صحابیہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے ایک دن بارگاہ نبوی میں عرض کی :حضور کو ایک مونس اور رفیق حیات چاہئیے- اگر اجازت ہو تو آپ کے نکاح ثانی کے لئے کہیں پیام دوں؟ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کے اس مخلصانہ مشورہ کو قبول فرمایا اور فرمایا کہ کس جگہ پیام دینے کا خیال ہے؟ خولہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اگر کنواری سے نکاح کرنا چاہیں تو آپ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں- اگر بیوہ سے چاہیں تو حضرت سودہ بنت زمعہ موجود ہیں، جو آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی اتباع کیں- آپ نے فرمایا دونوں جگہ پیام دے دو- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چونکہ قریب قریب ایک ہی زمانہ میں ہوا، مورخین میں اختلاف ہے کہ کس کو تقدم حاصل ہے- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا نکاح 10 نبوی میں ہوا نکاح کا خطبہ ان کے والد نے پڑھایا اور 400 درہم مہر مقرر ہوا- چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد امہات المومنین کے زمرے میں داخل ہوگئیں اور زندگی بھر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زوجیت کے شرف سے سرفراز رہیں اور انتہائی والہانہ عقیدت و محبت کے ساتھ آپ کی وفادار اور خدمت گزار رہیں-
"حضرت صفیہ بنت حی رضی اللہ"
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا باپ حُیی بن اخطب یہودیوں کے نامور قبیلے بنو نضیر کا سردار تھا۔ حُیی نبی کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنی قوم میں بیحد معزز تھا اور تمام قوم اسکی وجاہت کے آگے سر جھکاتی تھی۔
چودہ برس کی عمر میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی شادی یہود کے ایک نامور شہسوار اسلام بن مشکم القرظی سے ہوئی، لیکن دونوں میاں بیوی میں بن نہ پائی، نتیجتاً اسلام بن مشکم نے طلاق دے دی۔ اس طلاق کے بعد حُیی بن اخطب نے ان کا نکاح بنی قریظہ کے ایک مقتدر سردار کنانہ بن ابی الحُقیق سے کر دیا۔ وہ خیبر کے رئیس ابو رافع کا بھتیجا تھا اور خیبر کے قلعہ القموس کا حاکم تھا۔
فتح خیبر کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگا تو حضرت وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لیے پسند فرمایا۔ کیونکہ وہ تمام اسیران جنگ میں ذی وقعت تھیں اسلئے بعض صحابہ نے عرض کیا: ’’ یارسول اللہ! صفیہ بنی قریظہ اور بنو نضیر کی رئیسہ پے، خاندانی وقار اسکے بشرے سے عیاں ہے، وہ ہمارے سردار (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کیلئے موزوں ہے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشورہ قبول فرما لیا۔ وحیہ بن کلبی رضی اللہ عنہ کو دوسری لونڈی عطا فرما کر حضرت صفیہ کو آزاد کردیا اور انہیں یہ اختیار دیا کہ وہ چاہے اپنے گھر چلی جائیں یا پسند کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آجائیں۔ حضرت صفیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنا پسند کیا اور ان کے حسب منشاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔ صہبا کے مقام پر رسم عروسی ادا کی گئی اور وہیں دعوت ولیمہ بھی ہوئی۔ صہبا سے چلتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خود اپنے اونٹ پر سوار فرمایا اور خود اپنی عبا سے ان پر پردہ کیا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت سترہ برس کی تھی۔ اس نکاح کے بعد یہودی پھر مسلمانوں کے خلاف کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے۔ مدینہ پہنچ کر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حارث بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر اتارا۔ ان کے حسن و جمال کا شہرہ سن کر انصار کی عورتیں اور دوسری ازواج مطہّرات انہیں دیکھنے آئیں۔ جب دیکھ کر جانے لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے چلے اور حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا: ’’ عائشہ تم نے اس کو کیسا پایا؟‘‘ جواب دیا: ’’ یہودیہ ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ نہ کہو وہ مسلمان ہو گئی ہے اور اس کا اسلام اچھا اور بہتر ہے۔‘‘
"حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ"
آپ کو مقوقس کے شاہ اسکندریہ نے بطور نذرانہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، حضرت ماریہ مصر کی رئیس زادی تھیں، عزیز مصر، مقوقس نے قافلۂ ماریہ کو بڑے اہتمام اور عظیم الشان تحائف کے ساتھ رخصت کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قافلہ کا شاندار استقبال کیا اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو ام سلیم بنت ملحان کے گھر اتارا جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا واپسی میں راستہ میں حاطب بن بلتعہ کی دعوت اسلام سے مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی بہن سیرین بھی آئی تھیں، جن کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کردیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بھی ازواج مطہرات جیسا سلوک کرتے تھے۔
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بہت حسین و جمیل، نہایت خوش اخلاق اور بڑی دیندار خاتون تھیں.
" ألا لعنة الله على الكاذبين"